پاکستان نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں کیا گیا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش نہیں۔
پاکستان نے کہا ہے کہ اگر انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا تو پاکستان تمام دو طرفہ معاہدوں بشمول شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ تو بظاہر سمجھ میں آتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت دریاؤں کا پانی دونوں ممالک میں تقسیم ہوا۔ شملہ معاہدہ کیا ہے اور اس کا پس منظر اور اس کے دونوں ممالک پراثرات کیا ہیں؟
شملہ معاہدہ ہے کیا؟
شملہ معاہدہ 2 جولائی 1972 کو طے پایاجس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کر کے امن و استحکام کی راہ ہموار کرنا تھا۔یہ معاہدہ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا۔
معاہدے میں دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اپنے تمام اختلافات کو پرامن ذرائع سے، خاص طور پر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، یا کسی ایسے طریقہ کار پر عمل کریں گے جس پر باہمی طور پر اتفاق ہو۔
دونوں ممالک نے پائیدار امن، اچھے ہمسائیگی کے تعلقات اور مفاہمت کے قیام کے لیے پرامن بقائے باہمی، ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں کی پاسداری کا عزم ظاہر کیا۔
دیرپا امن کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے طے پایا کہ دونوں ممالک کی افواج بین الاقوامی سرحد پر اپنی اپنی حدود میں واپس چلی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ طے پایا کہ جموں و کشمیر میں 17 دسمبر 1971 کو جنگ بندی کے نتیجے میں جو لائن قائم ہوئی، اسے ’لائن آف کنٹرول‘ تسلیم کیا جائے گا۔
دونوں فریقوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس لائن کا احترام کریں گے اور اسے یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے، چاہے ان کے درمیان آئینی یا قانونی اختلافات موجود ہوں۔ فریقین نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی یا طاقت کے استعمال سے گریز کریں گے۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک عرب ویب سائٹ کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شملہ معاہدے میں پاکستان نے لائن آف کنٹرول کو تسلیم کر کے ایک طرح سے انڈین مطالبے کو تسلیم کیا تھا۔ اگر پاکستان شملہ معاہدے کو معطل کرتا ہے تو ایسی صورت میں لائن اف کنٹرول کا وجود ختم ہو جائیگا، آزاد اور مقبوضہ کشمیر کی تقسیم بھی ختم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا قدم ہوگا جس کے نتائج کو انڈیا بھی سمجھتا ہے۔معاہدے میں مخاصمانہ پروپیگنڈے سے اجتناب پر بھی زور دیا گیا۔ دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز یا اشتعال انگیز مہم سے پرہیز کریں گے تاکہ اعتماد کی فضا قائم کی جا سکے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ شملہ معاہدہ اگرچہ جنگ کے فوری بعد ایک سیاسی ضرورت کے تحت وجود میں آیا، لیکن اسے ایک پائیدار سفارتی فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ 93 ہزار قیدیوں کی رہائی اور مغربی محاذ پر انڈین افواج کے انخلا کی ضمانت تھا، جبکہ انڈیا کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد خطے میں اپنی برتری کو تسلیم شدہ حقیقت بنا سکے۔
دونوں فریق اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت معاہدے میں شریک ہوئے، لیکن معاہدے میں شامل ’دوطرفہ مذاکرات‘ کی شق آنے والے عشروں میں ایک پیچیدہ سفارتی رکاوٹ بن گئی۔
تجزیہ کار اور انٹرنیشنل افیئرز کے ماہر ہارون خان کے مطابق انڈیا نے اس نکتے کو بنیاد بنا کر ہر بار مسئلہ کشمیر پر عالمی ثالثی کی مزاحمت کی جبکہ پاکستان کے لیے یہ شق ایک سفارتی رکاوٹ بن کر رہ گئی۔ یوں شملہ معاہدہ ایک طرف تو دوطرفہ بات چیت کا دروازہ کھولتا رہا لیکن دوسری جانب وہی دروازہ بین الاقوامی حمایت کے امکان کو بند بھی کرتا گیا۔
معاہدے میں موجود مبہم زبان، جیسے ’جموں و کشمیر کا حتمی حل‘ یا ’دیرپا امن کی کوششیں،‘ دونوں ممالک کو اپنی اپنی تشریحات کی گنجائش دیتی رہیں جس سے اس معاہدے کا عملی اطلاق محدود ہو کر رہ گیا۔ ان کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ، جب بھی دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوئے، چاہے وہ کارگل ہو، ممبئی حملے ہوں یا پلوامہ واقعہ—شملہ معاہدے کی روح مزید دھندلا گئی۔
تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ جب دونوں ممالک تعلقات کی بنیاد بننے والے معاہدوں کو معطل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف تعلقات خراب ہوں گے بلکہ اساسی معاہدوں کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔