ضلع جہلم ویلی کو یونیورسٹی کی زمین دی جائے، ورنہ عوام سڑکوں پر آئیں گے: امیر جماعت اسلامی

ہٹیاں بالا : امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان ڈاکٹر راجہ محمد مشتاق نے کہا ہے کہ تعلیم، صحت سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہےمگر ضلع جہلم ویلی میں یونیورسٹی مکانیت کے معاملے پر طلبہ کے تعلیمی حق پر کھلم کھلا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔

ڈاکٹر راجہ محمد مشتاق نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق دو ہفتوں میں یونیورسٹی کے لیے اراضی فراہم کریں، بصورت دیگر عوام، طلبہ، اساتذہ اور تاجر سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں گے۔

ڈسٹرکٹ پریس کلب ہٹیاں بالا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر راجہ محمد مشتاق نے کہا کہ حکومتی عدم دلچسپی اور منتخب عوامی نمائندوں کی غیر سنجیدگی سے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ ضلع جہلم ویلی، جو لائن آف کنٹرول سے متصل ہے، آج بھی پسماندگی کا شکار ہے۔ یہاں سے منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان سمیت دیگر حکمران معیاری تعلیمی ماحول اور مستقل مکانیت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہلم ویلی تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم ضلع ہے، جو تحریک آزادی کشمیر کا گیٹ وے بھی ہے۔ اس علاقے کی ترقی و خوشحالی تحریک آزادی کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، جس کے باعث عوام مایوسی اور غیر یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر راجہ محمد مشتاق نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کے مطابق ہر ضلع میں یونیورسٹی کیمپس قائم کیے جانے لازمی ہیں تاکہ معیار تعلیم بلند ہو اور نوجوان عالمی سطح پر تعلیمی و پیشہ ورانہ مقابلوں کے قابل بن سکیں۔ اسی پالیسی کے تحت 2015ء سے کمیٹی نے مختلف جگہوں کا جائزہ لیا، مناسب مقامات کی نشاندہی ہوئی، حتیٰ کہ محکمہ مال نے سیکشن 14 کے تحت زمینوں کی خرید و فروخت اور تعمیرات پر پابندی بھی عائد کی، مگر آج 2025ء آ چکا ہے اور دس سال گزرنے کے باوجود کوئی عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے یونیورسٹی کو مستقل جگہ فراہم کرنے کے بجائے پہلے سے قائم چھوٹے اداروں میں ضم کرنے کے احکامات جاری کیے، جو نہ صرف غیر سنجیدہ بلکہ طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ ایچ ای سی کے مطابق یونیورسٹی کیمپس کے لیے سینکڑوں کنال اراضی، معیاری تعلیمی ماحول اور مختلف شعبہ جات کی موجودگی لازمی ہے، جبکہ ایک چھوٹے کالج کی عمارت میں یونیورسٹی کی گنجائش ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے انٹر کالج کے ساتھ تین سالہ معاہدے کے بعد متبادل جگہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو تاحال پورا نہیں ہوا۔ حکومت اور منتخب نمائندے مکمل طور پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس سے ہزاروں طلبہ اور ان کے والدین دیگر شہروں کے مہنگے اخراجات کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ جہلم ویلی کے عوام کا تعلیمی حق بحال کیا جائے، اور وزیراعظم فوری طور پر اس مسئلے کو حل کریں۔ فزیبلٹی رپورٹ گزشتہ دس سال سے پڑی ہے، اس کے مطابق موزوں جگہ پر مکانیت کا بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق سے مطالبہ کیا کہ دو ہفتوں کے اندر اندر یونیورسٹی مکانیت کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو سول سوسائٹی، طلبہ، اساتذہ، تاجر اور عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ حساس جغرافیائی حیثیت رکھنے والے اس ضلع کے عوام کو سڑکوں پر لا کر مقبوضہ کشمیر کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ یہی تو وہ صورتحال ہے جو بھارت چاہتا ہے کہ آزادکشمیر کے نوجوان ریاست سے بدظن ہوں۔

آخر میں انہوں نے زور دیا کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر ضلع جہلم ویلی کو ماڈل ضلع بنانے اور تعلیمی معیار بلند کرنے کیلئے اقدامات کرے، ذمہ داروں کا کڑا احتساب کیا جائے اور طلبہ کو ان کا آئینی اور بنیادی حق دیا جائے۔ انہوں نے تمام سیاسی و سماجی قوتوں، طلبہ و طالبات اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس اہم قومی مسئلے پر متحد ہو کر اپنا کردار ادا کریں۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے دیگر رہنما راجہ نزاکت ایڈووکیٹ، شاہنواز خان، راجہ نقیب، راجہ اسامہ سمیت دیگر افراد بھی موجود تھے۔

Scroll to Top