مظفر آباد ( کشمیر ڈیجیٹل )آزاد کشمیر حکومت کو دوسال پورے ہونے کو ہیں،ان دوسالوں میں ریاست کے لوگوں نے اور ریاست نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اس حوالے سے تجزیہ نگار مسعود الرحمان نے کہا ہے کہ 20اپریل 2023 کو انوار الحق نے جب وزیر اعظم کا حلف اٹھا یا تھا اور کہا تھا کہ ریاست کوکرپشن سے پاک کرینگے ، قبضہ مافیا لینڈ مافیا کیخلاف کارروائی کرینگے، لیکن دوسال میں کوئی ا یسی پالیسی نہیں بنی جس سے لینڈ مافیا ،قبضہ مافیا کیخلاف کارروائی ہوئی ہو۔
دوسالوں میں سرکاری زمینوں پر سب سے زیادہ قبضے ہوئے ،نیلم ویلی بھمبر،میر پور،کوٹلی اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں سرکاری زمینوں پر لینڈ مافیا نے قبضہ کیالیکن آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے کہیں کوئی کارروائی ہوتی نظر نہیں آئی نہ مافیا سے کسی سرکاری اراضی کو واگزار کرایا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ ہائیڈور بورڈجس کا آزاد کشمیر کے بڑے محکموں میں شکار ہوتا ہے گزشتہ دو سالوں سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کی طرف سے ان کو دوسال میں ترقیاتی مد میں بجٹ جاری نہیں کیا گیا ۔
یہ خبربھی پڑھیں ۔ آزاد کشمیر میں پانی کا بحران: حکومتی پالیسی کا فقدان اور سنگین نتائج کا خدشہ
حالانکہ جب وزیر اعظم نے حلف لیا تھاتو کہا تھا کہ آزاد کشمیر میں جو اچھے محکمے ہیں یا جو محکمےریاستی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں ان کو وافر بجٹ جاری کیا جائے گااور کوئی کسی قسم کی قدغن نہیں ہوگی ،لیکن سب سے پہلے انہیں اداروں پر قدغن لگائی گئی جو ادارے تھوڑا بہت ترقی میں کردار ادا کررہے ہیں ۔
محکمہ لوکل گورنمنٹ ، محکمہ تعلیم ، محکمہ زراعت ان محکموں کو بجٹ تو دے دیا جاتا ہے لیکن ان کا کوئی احتساب نہیں کیا جاتا ۔
آزاد کشمیر محکمہ لوکل گورنمنٹ کے افسران جن کی جائیدادیں مظفر آباد،اسلام آباد ،راولپنڈی ، میر پور حتٰی کہ بیرون ملک بھی ہیں لیکن ان میں سے کسی کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی ۔
پٹواری گرداور تحصیل دار کو احتسابی سسٹم کے ذریعے اٹھوا لیا گیا لیکن جو بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی تھی میرٹ کی پامالی ہورہی تھی انہیں کچھ نہیں کہا گیا ۔
آزاد کشمیر میں دیگر جو محکمہ جات تھے ان کے بجٹ کو جو تصرف ہےاس پر کبھی کسی بھی ادارے اینٹی کرپشن ، احتساب بیورو نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔
یہ خبربھی پڑھیں ۔جس دن اقتدار سے دور ہواناقدین کی اصلیت شجروں سمیت عوام کے سامنے رکھ دوں گا،چوہدری انوارالحق
آزاد کشمیر کا جو دوسالہ نظام حکومت ہے وہ انتہائی غیر تسلی بخش رہا ،سرکاری ادارے مستحکم ہونے کے بجائے غیر مستحکم ہوئے ،جو وہاں پر افسران بیٹھے ہیں جو کام کرنا چاہ رہے تھے وہ غیریقینی صورتحال کاشکار ہیں ۔
آزاد کشمیر میں حکومت نظر تو آرہی ہے لیکن جس طرح اداروں کو چلایا جانا چاہیے یا جس طرح اداروں کو چلایا جاتا ہے اس طرح ادارے نہیں چلائے جارہے ۔
ہٹ دھرمی اور انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے آزاد کشمیر کے سرکاری ادارے پہلے سے زیادہ کمزور ہوئے اور کام کرنے سے بھی اب ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں ۔دوسال سے جو ایڈہاک ملازمین ہیں نہ تو ان کو اداروں سے نکالا گیا نہ ہی ان کو رکھا گیا۔
بیالیس سو خاندان عجیب سی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کے ورثاء لواحقین ذہنی اضطراب کا شکار ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے
حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایک پالیسی بناتی اور ملازمین کوبتایا جاتا کہ آپ یہاں سے فارغ ہیں آپ کوئی اور کام کریں اسی میرٹ کی پامالی اور کرپشن کی وجہ سے پڑھے لکھے اچھے دماغ والے نوجوان یہاں سے اپنا سب کچھ بیچ کر بیرون ملک سیٹل ہورہے ہیں ۔
حکومت نے نہیں سوچا کہ ہمارے جو باصلاحیت لوگ ہیں جن کے پاس کچھ آئیڈیاز ہیں جو کچھ کرنا چاہ رہے تھے وہ یہاں سے کیوں باہر بھاگ رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لاقانونیت ہے، میرٹ کی پامالی ہے، نوجوان دلبرداشتہ ہوکر باہر جارہے ہیں یہ آزاد کشمیر کے سرکاری اداروں ، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے باعث ندامت ہے ۔
حکومت اس حوالے سے دوسالوں میں کوئی پالیسی نہیں بناسکی وزیر اعظم جو ترقیاتی بجٹ کی مد میں لوکل گورنمنٹ کوبجٹ دیتے ہیں کبھی پوچھا کہ چالیس فیصد بھی زمین پر لگا ہے یا نہیں لگا ؟
یہ خبربھی پڑھیں ۔انوار الحق ناکام ترین وزیر اعظم ،ان کے قول و فعل میں تضاد ہے، اپنا فیصلہ خود نہیں کرسکتے ،شوکت نواز میر
اگر ایک سال میں لوکل گورنمنٹ کا بجٹ زمین پر لگ جائے تو80فیصد سڑکیں درست ، سیوریج سسٹم ٹھیک اور پانی کا نظام بہتر ہوجائے لیکن حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔
ملازمین آج بھی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں ایم این سی ایچ پروگرام کی خواتین اپنے بچوں سمیت سیکرٹریٹ میں بیٹھی ہیں غریبوں کا توکچھ نہ ہوا
آزاد کشمیر کے لوگوں کو اس حوالے سےسوچنا چاہیے کہ موجودہ حکومت نے نوجوانوں ،عوام اور خواتین ملازمین کے ساتھ کیا کیا ؟
عوام کا ایکشن کمیٹی پر اعتماد بحال ہوچکا ہے سیاسی لوگوں اور موجودہ حکمرانوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے یہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں قائدین کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ایکشن کمیٹی نے تھوڑے عرصے میں مقبولیت حاصل کرلی اور الیکشن مہم میں یہ لوگ ان کا حساب دیں گے سیاسی لوگوں کو اس حوالے سے پالیسی واضح کرنی چاہیے۔