جوہری

استنبول میں ایران اور یورپی ممالک کے درمیان اہم جوہری مذاکرات

استنبول : ایرانی سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ انہوں نے جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے نمائندوں کیساتھ جوہری پروگرام پر ’’واضح اور تفصیلی ‘‘ بات چیت کی ہے ۔

یورپی طاقتوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی اور اقوامِ متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون بحال نہ کیا تو اس پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں ۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت پر ہوئے جب اسرائیل نے گزشتہ ماہ ایران کے جوہری اور فوجی مقامات پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں 12 دن تک شدید جھڑپیں جاری رہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ،ایران اور امریکہ کے درمیان ٹکرائو ہوتے ہوتے رہ گیا

ایران نے اس کے بعد اقوامِ متحدہ کے جوہری ادارے (IAEA) سے تعاون معطل کر دیا۔یورپی ممالک جنہیں E3 کہا جاتا ہے نے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ’’اسنیپ بیک میکانزم ‘‘کو فعال کرنے کی دھمکی دی ہے، جس کے ذریعے ایران پر اقوامِ متحدہ کی پرانی پابندیاں دوبارہ لاگو کی جا سکتی ہیں۔ یہ مہلت اگست کے آخر تک محدود ہے اور اکتوبر میں ختم ہو جائے گی ۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران اسرائیل کے حملوں پر یورپی مؤقف پر شدید تنقید کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسنیپ بیک” میکانزم پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ مشاورت جاری رکھی جائے گی ۔

ایرانی نمائندے ماجد تخت روانچی نے سرکاری خبر رساں ادارے IRNA کو بتایا کہ ایران نے پابندیاں فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی ذرائع کے مطابق اگر ایران نے جوہری معاہدے کی شرائط پر واپسی کیلئے واضح اقدامات نہ کیے تو پابندیوں کا نفاذ ناگزیر ہو گا ۔

ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں بحال کی گئیں تو تہران جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (NPT) سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔گزشتہ ماہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا، جس میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدان مارے گئے، بعد میں امریکا نے بھی ایرانی تنصیبات پر حملے کیے، جس سے امریکہ-ایران جوہری مذاکرات کا عمل رک گیا ۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ، ایران، سعودیہ اور ترکیہ مل کر اتحاد بنا سکتے ہیں،ایرانی سفیررضاامیری

ایران نے یورینیم کی 60 فیصد تک افزودگی جاری رکھی ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں مقرر 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ تہران کا مؤقف ہے کہ افزودگی اس کا ناقابلِ مذاکرات حق ہے، جبکہ واشنگٹن اسے خطرناک قرار دیتا ہے۔ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افزودگی کی سطح پر بات چیت کیلئے تیار ہیں، لیکن یورینیم افزودہ کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔

جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران نے IAEA کے معائنہ کاروں سے تعاون معطل کر دیا ہے، تاہم توقع ہے کہ ایک تکنیکی ٹیم آئندہ ہفتوں میں ایران کا دورہ کرے گی ۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کی تنصیبات پر دوبارہ حملہ ہوا تو وہ سخت ردعمل دے گا، جبکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو کارروائی کا امکان موجود ہے ۔

Scroll to Top