(کشمیر ڈیجیٹل)بیجنگ میں یورپی یونین اور چین کے درمیان اہم سربراہی اجلاس جمعرات کو شروع ہوگیا ہے، جس میں تجارت، یوکرین جنگ اور باہمی تعلقات جیسے حساس موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔
یہ اجلاس اس وقت منعقد ہورہا ہے جب عالمی تجارت اور سیاسی منظرنامے میں غیر یقینی صورتحال چھائی ہوئی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی شرکت سے متعلق غیر یقینی صورتحال بھی اجلاس پر اثرانداز رہی کیونکہ انہوں نے پہلے برسلز میں ہونے والے مجوزہ اجلاس میں شرکت سے معذرت کی تھی۔ تاہم، چین نے رواں ہفتے تصدیق کی کہ صدر شی جن پنگ بیجنگ میں یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا وان ڈیر لیئن اور یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا سے ملاقات کریں گے۔
سال کے آغاز پر دونوں فریقین کے درمیان تعلقات کے بہتر ہونے کی امید تھی، خاص طور پر اس قیاس آرائی کے بعد کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارت سے چین اور یورپی یونین قریب آسکتے ہیں۔ لیکن اب حالات پہلے سے زیادہ کشیدہ ہوچکے ہیں۔
امیدیں کم، خدشات زیادہ:
یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا وان ڈیر لیئن نے اجلاس کے آغاز پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہا کہ یہ اجلاس چین اور یورپی یونین کو تعلقات کو “آگے بڑھانے اور توازن لانے” کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا:
“مجھے یقین ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند تعاون قائم کر سکتے ہیں۔۔۔ ایک ایسا تعاون جو اگلے 50 برسوں کے لیے ہماری راہوں کا تعین کرے گا۔”
اگرچہ دونوں طرف سے مثبت بیانات سامنے آئے ہیں، لیکن برسلز میں یہ توقع نہیں کی جا رہی کہ اجلاس سے کوئی ٹھوس پیش رفت ہوگی۔ چین کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اسے “ماضی کی کامیابیوں پر بنیاد رکھنے اور ایک نیا باب کھولنے” کا نازک موقع قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کی 27 رکن ریاستیں بھی امریکہ کی جانب سے برآمدات پر عائد کردہ ٹیرف جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ لیکن صدر شی جن پنگ کا برسلز کا دعوت نامہ مسترد کرنا، اور پھر ماسکو جا کر روس کی جنگی تقریب میں شرکت کرنا یورپی حلقوں میں منفی تاثر چھوڑ گیا۔
یورپی پارلیمنٹ میں چین سے متعلق وفد کے سربراہ اینگن ایروغلو کا کہنا ہے کہ:”اس اسٹریٹیجک بےاعتمادی کے ماحول میں فضا تناؤ سے بھرپور ہے، اگر منجمد نہیں تو ضرور سرد ہے۔”
روس-یوکرین جنگ نے تعلقات کو مزید بگاڑا:
چین اور یورپی یونین کے تعلقات میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یوکرین جنگ بنی۔ یورپی یونین نے گزشتہ ہفتے دو چینی بینکوں پر روس کو امداد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کیں، جس پر بیجنگ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے “سخت تحفظات” کا اظہار کیا۔
اطلاعات ہیں کہ چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے یورپی خارجہ پالیسی چیف کاجا کالاس کو بتایا کہ چین نہیں چاہتا کہ روس یہ جنگ ہارے – یہ موقف چین کے سرکاری طور پر اختیار کردہ غیرجانبدارانہ مؤقف سے متصادم ہے۔ چین نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
کالاس کا مؤقف ہے کہ چین روس کی جنگ کا “کلیدی معاون” ہے اور اگر چین چاہے تو روس کی مدد روکنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
تجارتی محاذ پر تناؤ بڑھتا جا رہا ہے:
یورپی یونین کی جانب سے چینی الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیرف لگانے کے بعد چین نے جوابی اقدام کے طور پر یورپی مشروبات پر محصول عائد کیے۔ حالیہ دنوں میں چین نے یورپی طبی آلات کی سرکاری خریداری پر پابندی عائد کی، جبکہ یورپی یونین نے بھی اسی طرح کی پابندیاں رواں سال جون میں چینی مصنوعات پر لگائی تھیں۔
چین نے نایاب معدنیات پر برآمدی کنٹرول سخت کیے ہیں اور یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیئن کا الزام ہے کہ چین عالمی مارکیٹ میں ان معدنیات پر اپنی “نیم اجارہ داری” کو یورپی صنعتوں کو کمزور کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
یورپی صنعتیں پہلے ہی سستے اور سبسڈی والے چینی سامان کی بھرمار سے پریشان ہیں۔ گزشتہ برس چین کے ساتھ یورپی تجارتی خسارہ 305.8 ارب یورو رہا، جو گزشتہ نو سال میں دگنا ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا مختلف ممالک پر15سے50فیصد تک ٹیرف عائد کرنےکا اعلان
چینی سفیر کائی رن نے حالیہ انٹرویو میں یورپی یونین کی جانب سے چین کو بیک وقت “شراکت دار، اقتصادی حریف اور نظامی مخالف” قرار دینے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق:”یہ ایسا ہے جیسے ٹریفک سگنل پر بیک وقت سبز، پیلا اور سرخ بلب روشن ہوں – جو نہ صرف رہنمائی میں ناکامی ہے بلکہ الجھن اور رکاوٹ کا باعث بھی ہے۔”