(کشمیر ڈیجیٹل)پاکستان میں حکومت کی جانب سے بڑے جانوروں، جیسے شیروں اور چیتوں، کی نجی ملکیت کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد کئی مالکان نے اپنے جانور چھپانا شروع کر دیے ہیں۔ لاہور کے نواح میں واقع ایک فارم ہاؤس سے اٹھتی غیر معمولی بو نے حکام کو متوجہ کیا۔ اندر داخل ہونے پر انکشاف ہوا کہ وہاں 26 شیر، چیتے اور ان کے بچے موجود ہیں۔ اس فارم کے مالک 38 سالہ فیاض ہیں، جو گزشتہ 10 برس سے ان جانوروں کی افزائش اور فروخت کا کام کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کا ایک بڑا شیر ڈیلر سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں دہائیوں سے یہ جانور طاقت، حیثیت اور سیاسی وابستگی کی علامت کے طور پر پالے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان بھی شیر ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام نے حالیہ برسوں میں اس رجحان کو مزید فروغ دیا، اور بعض افراد شادیوں میں بھی شیر لانے لگے۔
تاہم حالیہ دنوں لاہور میں ایک پالتو شیر کے حملے میں خاتون اور اس کے بچوں کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد حکومت نے سخت اقدامات کا اعلان کر دیا۔ نئی پالیسی کے تحت ہر بڑے جانور کی رجسٹریشن کے لیے 50 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے، اور فارم پر زیادہ سے زیادہ 10 جانور (صرف دو اقسام) رکھنے کی اجازت ہو گی۔ تمام فارم عوام کے لیے کھولنا بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔
قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں دو لاکھ روپے تک جرمانہ اور بدترین صورت میں سات سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
لاہور کے ایک اور نواحی علاقے میں وائلڈ لائف حکام کو اطلاع ملی کہ بغیر لائسنس شیر رکھے جا رہے ہیں۔ چھاپے کے دوران مالک فرار ہو گیا جبکہ کیئر ٹیکر کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس نے بتایا کہ اسے دو ہفتے پہلے ملازمت ملی تھی۔ وہاں موجود پانچ شیر کے بچے ایک پنجرے میں قید پائے گئے جبکہ دیگر پنجرے خالی تھے۔ حکام کو شبہ ہے کہ بالغ شیر چھپا دیے گئے ہیں۔
ان بچوں کو لاہور کے چڑیا گھر منتقل کر کے طبی معائنے کے لیے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ وائلڈ لائف اینڈ پارکس کے ڈائریکٹر جنرل مبین الٰہی کے مطابق پنجاب میں سیکڑوں ایسے بڑے جانور موجود ہیں جنہیں اب تک رجسٹر نہیں کرایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل مکمل کرنے میں کم از کم چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں جانوروں کی افزائش نسل میں ان بریڈنگ (قریبی نسلوں کی آمیزش) کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، جس کے باعث بعض جانور شدید جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں، اور کچھ کو ممکنہ طور پر ہلاک بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
فیاض کے فارم پر بھی حکام نے پنجروں کی حالت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور تین ماہ کے اندر اس فارم کو عوامی چڑیا گھر میں تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ادھر جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ حکومت وقتی اقدامات کے بجائے دیرپا اور مؤثر پالیسی اختیار کرے۔ اس حوالے سے معروف جانوروں کے حقوق کے وکیل اور ماہر ماحولیات آلتمش سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کافی عرصے سے حکومت سے
یہ بھی پڑھیں: ظہیر احمد مغل پی ٹی آئی لیپہ ویلی کے چیف آرگنائزر مقرر
محفوظ پناہ گاہوں (sanctuaries) کا مطالبہ کر رہے ہیں، نہ کہ چڑیا گھروں کا۔ ہمیں شفافیت، ذمہ داری اور ایک منظم حل چاہیے، عارضی فیصلے نہیں۔