بنگلہ دیش کی نئی حکومت کا جھکاؤ چین و پاکستان کی طرف، انڈیا برہم

بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی کے بعد نئی حکومت کا جھکاؤ واضح طور پر چین اور پاکستان کی طرف نظر آ رہا ہے، جس پر انڈیا شدید برہم اور پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ انڈیا اپنی پرانی اتحادی حسینہ واجد کی برطرفی پر ناخوش ہے اور بنگلہ دیش میں بڑھتے چینی اثر و رسوخ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد جہاں بنگلہ دیش میں داخلی طور پر پولرائزیشن اور بیرونی مداخلت کا خدشہ ہے، وہیں علاقائی سطح پر بھی نئی صف بندیاں سامنے آ رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق سابق وزیراعظم حسینہ واجد اگست 2024 میں شدید احتجاج کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانہ ہوئیں، جس پر عوام کی برہمی انڈیا کی طرف منتقل ہو گئی۔ بنگلہ دیش کے نگران رہنما محمد یونس کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرست انڈین حکومت کی طرف سے حسینہ واجد کو پناہ دیے جانے پر عوامی ردعمل انڈیا کے خلاف بڑھا ہے۔

نگراں حکومت کے تحت بنگلہ دیش کے خارجہ تعلقات نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ وزارت خارجہ امور کے سربراہ توحید حسین کے مطابق، انڈیا سے تعلقات ری ایڈجسٹمنٹ کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اسی دوران محمد یونس نے مارچ میں چین کا پہلا سرکاری دورہ کیا جہاں انہیں 2.1 ارب ڈالر کے قرضے اور گرانٹس حاصل ہوئیں۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنما مرزا فخرالاسلام جنہیں آئندہ الیکشن میں مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے، کہتے ہیں کہ چین اگلی حکومت کے ساتھ محبت و خلوص سے کام کرنے کا خواہشمند ہے۔

ادھر، انڈیا کو نہ صرف چین بلکہ پاکستان سے بھی بنگلہ دیش کے بڑھتے تعلقات پر تشویش ہے۔ رواں سال اپریل میں کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کی پیشکش کی۔ جواباً دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی جو بعد ازاں امریکی مداخلت سے جنگ بندی پر منتج ہوئی۔

اس کشیدگی کے اگلے ماہ ڈھاکہ اور اسلام آباد کے حکام نے چین میں ملاقات کی، جس کے بعد چینی وزارت خارجہ کے مطابق تینوں ممالک نے تجارت، تعلیم، صنعت اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبیداللہ حق کے مطابق، چین کے ساتھ تعاون خاص طور پر صحت کے شعبے میں فائدہ مند رہا ہے۔ انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیشی مریضوں کی آمد پر پابندی لگائے جانے کے بعد چین نے تین ہسپتال ان مریضوں کے لیے مختص کیے۔

مزید برآں، 1971 میں پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش نے گزشتہ سال پاکستان کے ساتھ سمندری تجارت اور براہ راست پروازوں کا آغاز کیا، جس سے انڈیا میں مزید تشویش پیدا ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر میں ماحولیاتی بہتری کیلئے کاروان فاؤنڈیشن کی بڑی شجرکاری مہم

بین الاقوامی تجزیہ کار پروین ڈونتھی کے مطابق، انڈیا کی موجودہ سیاسی قیادت بنگلہ دیش کی ایسی حکومت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں جو اس کے بقول اسلام پسند ہو اور انڈیا مخالف سمجھی جائے۔

Scroll to Top